الہٰی حاکمیت کے حق میں مسیحی گواہ
”تم . . . اُسکی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“—۱-پطرس ۲:۹۔
۱. مسیحیت سے قبل وقتوں میں یہوؔواہ کی بابت کونسی مؤثر گواہی دی گئی تھی؟
مسیحیت سے پہلے کے زمانے میں، گواہوں کے ایک طویل سلسلے نے دلیری سے اِس بات کی تصدیق کی کہ یہوؔواہ واحد سچا خدا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۴–۱۲:۱) اپنے ایمان میں مضبوط، اُنہوں نے بِلاخوف یہوؔواہ کے قوانین کی تابعداری کی اور پرستش کے معاملات میں مصالحت کرنے سے انکار کر دیا۔ اُنہوں نے یہوؔواہ کی عالمگیر حاکمیت کیلئے زوردار گواہی دی۔—زبور ۱۸:۲۱-۲۳؛ ۴۷:۱، ۲۔
۲. (ا) یہوؔواہ کا عظیمترین گواہ کون ہے؟ (ب) یہوؔواہ کے گواہ کے طور پر کس نے اسرائیلی اُمت کی جگہ لے لی؟ ہم کسطرح جانتے ہیں؟
۲ مسیحیت سے قبل آخری اور عظیمترین گواہ یوؔحنا اصطباغی تھا۔ (متی ۱۱:۱۱) اُسے برگزیدے کی آمد کا اعلان کرنے کا شرف حاصل ہوا اور اُس نے یسوؔع کو موعودہ مسیحا کے طور پر متعارف کرایا۔ (یوحنا ۱:۲۹-۳۴) یہوؔواہ کا عظیمترین گواہ، ”سچا اور برحق گواہ،“ یسوؔع ہے۔ (مکاشفہ ۳:۱۴) چونکہ جسمانی اسرائیل نے یسوؔع کو رد کر دیا تھا اس لئے یہوؔواہ نے اُنہیں رد کر دیا اور اپنے گواہ ہونے کیلئے ایک نئی اُمت، خدا کے روحانی اسرائیل کو مُعیّن کِیا۔ (یسعیاہ ۴۲:۸-۱۲؛ یوحنا ۱:۱۱، ۱۲؛ گلتیوں ۶:۱۶) پطرؔس نے اسرائیل کی بابت ایک پیشینگوئی کا حوالہ دیا اور ظاہر کِیا کہ اِسکا اطلاق ”خدا کے اسرائیل،“ مسیحی کلیسیا، پر ہوا تھا، جب اُس نے کہا: ”تم ایک برگزیدہ نسل۔ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔ مُقدس قوم اور ایسی اُمت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُسکی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“—۱-پطرس ۲:۹؛ خروج ۱۹:۵، ۶؛ یسعیاہ ۴۳:۲۱؛ ۶۰:۲۔
۳. خدا کے اسرائیل اور ”بڑی بِھیڑ“ کی اوّلین ذمہداری کیا ہے؟
۳ پطرؔس کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا کے اسرائیل کی اوّلین ذمہداری یہوؔواہ کے جلال کی بابت اعلانیہ گواہی دینا ہے۔ ہمارے زمانے میں اِس روحانی اُمت کے ساتھ گواہوں کی ”ایک . . . بڑی بِھیڑ“ شامل ہو گئی ہے وہ بھی اعلانیہ طور پر خدا کی تمجید کرتی ہے۔ وہ بلند آواز میں چلّاتے ہیں تاکہ سب سنیں: ”نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے۔“ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۰؛ یسعیاہ ۶۰:۸-۱۰) خدا کا اسرائیل اور اُسکے ساتھی اپنی گواہی کو کیسے سرانجام دے سکتے ہیں؟ اپنے ایمان اور فرمانبرداری کے ذریعے۔
جھوٹے گواہ
۴. یسوؔع کے زمانے کے یہودی جھوٹے گواہ کیوں تھے؟
۴ خدائی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ایمان اور فرمانبرداری شامل ہے۔ یسوؔع نے اپنے زمانے کے یہودی مذہبی پیشواؤں کی بابت جو کچھ کہا تھا اُس سے اِس بات کی اہمیت دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ شرع کے عالموں کے طور پر خود ”موسیٰ کی گدی پر بیٹھے“ تھے۔ اُنہوں نے تو بےایمانوں کو یہودی بنانے کیلئے مشنری بھی بھیجے۔ پھربھی، یسوؔع نے اُن سے کہا: ”تم . . . ایک مُرید کرنے کے لئے تری اور خشکی کا دَورہ کرتے ہو اور جب وہ مُرید ہو چکتا ہے تو اُسے اپنے سے دُونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو۔“ یہ مذہبی لوگ جھوٹے گواہ تھے—متکبر، ریاکار، اور ظالم۔ (متی ۲۳:۱-۱۲، ۱۵) ایک موقع پر یسوؔع نے بعض یہودیوں سے کہا: ”تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔“ وہ خدا کی برگزیدہ اُمت کے افراد سے ایسی بات کیوں کہے گا؟ کیونکہ اُنہوں نے یہوؔواہ کے عظیمترین گواہ کی باتوں پر دھیان نہیں دیا تھا۔—یوحنا ۸:۴۱، ۴۴، ۴۷۔
۵. ہم کیسے جانتے ہیں کہ مسیحی دُنیا نے خدا کی بابت جھوٹی گواہی دی ہے؟
۵ اِسی طرح، یسوؔع کے زمانے سے لیکر صدیوں کے دوران، مسیحی دُنیا کے لاکھوں لوگوں نے اُسکے شاگرد ہونے کا دعویٰ کِیا ہے۔ تاہم، اُنہوں نے خدا کی مرضی کو پورا نہیں کِیا ہے اور اِس لئے یسوؔع اُنہیں قبول نہیں کرتا۔ (متی ۷:۲۱-۲۳؛ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۱-۳) مسیحی دُنیا نے مشنری بھیجے ہیں، بِلاشُبہ اُن میں سے بہتیرے مخلص تھے۔ تاہم، اُنہوں نے لوگوں کو ایک ایسے تثلیثی خدا کی پرستش کرنے کی تعلیم دی جو گنہگاروں کو دوزخ کی آگ میں جلاتا ہے، اور اُن کے نومذہب زیادہتر مسیحی ہونے کا بہت ہی کم ثبوت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، رواؔنڈا کا افریقی ملک رومن کیتھولک مشنریوں کیلئے بہت ہی زرخیز زمین ثابت ہوا ہے۔ پھربھی، رواؔنڈا کے کیتھولکوں نے حالیہ نسلی فسادات میں پوری طرح حصہ لیا۔ اِس مشنری زمین کے پھل ظاہر کرتے ہیں کہ اِس نے مسیحی دُنیا کی طرف سے خالص مسیحی گواہی حاصل نہیں کی۔—متی ۷:۱۵-۲۰۔
خدائی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا
۶. کن طریقوں سے اچھا چالچلن گواہی دینے کا ایک اہمترین حصہ ہے؟
۶ مسیحی ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا بُرا چالچلن ”راہِحق“ پر بدنامی لاتا ہے۔ (۲-پطرس ۲:۲) ایک حقیقی مسیحی خدائی اصولوں کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ وہ چوری نہیں کرتا، جھوٹ نہیں بولتا، دھوکادہی نہیں کرتا، یا بداخلاقی کا مُرتکب نہیں ہوتا۔ (رومیوں ۲:۲۲) یقیناً وہ اپنے ہمسائے کا خون نہیں بہاتا۔ مسیحی شوہر اپنے خاندانوں کی پُرمحبت پیشوائی کرتے ہیں۔ بیویاں احترام کیساتھ اُس پیشوائی کی حمایت کرتی ہیں۔ بچے اپنے والدین سے تربیت حاصل کرتے ہیں اور یوں ذمہدار بالغ مسیحی بننے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ (افسیوں ۵:۲۱–۶:۴) سچ ہے کہ ہم سب ناکامل ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن ایک حقیقی مسیحی بائبل معیاروں کا احترام کرتا ہے اور اُنکا اطلاق کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا ہے۔ یہ بآسانی دوسروں کی توجہ میں آتا ہے اور عمدہ گواہی دیتا ہے۔ بعضاوقات، وہ جو پہلے سچائی کے مخالف ہوا کرتے تھے اُنہوں نے کسی مسیحی کا اچھا چالچلن دیکھا اور قائل ہو گئے۔—۱-پطرس ۲:۱۲، ۱۵؛ ۳:۱۔
۷. مسیحیوں کا ایکدوسرے سے محبت رکھنا کسقدر اہم ہے؟
۷ یسوؔع نے مسیحی چالچلن کے ایک نہایت اہم پہلو کو اُجاگر کِیا جب اُس نے کہا: ”اگر آپس میں محبت رکھوگے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵) ”ناراستی بدی لالچ اور بدخواہی . . . اور حسد خونریزی جھگڑے مکاری اور بغض سے معمور . . . اور غیبت کرنے والے۔ بدگو۔ خدا کی نظر میں نفرتی اَوروں کو بےعزت کرنے والے مغرور شیخیباز بدیوں کے بانی ماں باپ کے نافرمان“ شیطان کی دُنیا کا خاصہ ہیں۔ (رومیوں ۱:۲۹، ۳۰) ایسے ماحول میں، ایک عالمگیر تنظیم جسکا خاصہ محبت ہو خدا کی سرگرمِعمل روح کا زبردست ثبوت ہوگی—ایک مؤثر گواہی۔ یہوؔواہ کے گواہ ایسی تنظیم کو تشکیل دیتے ہیں۔—۱-پطرس ۲:۱۷۔
گواہ بائبل کے طالبعلم ہیں
۸، ۹. (ا) زبورنویس نے کیسے خدا کی شریعت کے اپنے مطالعے اور اِس پر غوروخوض سے تقویت حاصل کی تھی؟ (ب) گواہی دیتے رہنے کیلئے بائبل کا مطالعہ اور غوروخوض ہمیں کن طریقوں سے تقویت دیگا؟
۸ ایک عمدہ گواہی دینے میں کامیاب ہونے کیلئے، ایک مسیحی کو یہوؔواہ سے واقف ہونا اور اُسکے راست اصولوں سے محبت کرنی چاہئے اور درحقیقت دُنیا کے بگاڑ سے نفرت کرنی چاہئے۔ (زبور ۹۷:۱۰) دُنیا اپنی سوچ کو فروغ دینے میں قائل کرنے والی ہے، اور اِسکی روح کی مزاحمت کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ (افسیوں ۲:۱-۳؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵، ۱۶) کونسی چیز ایک مناسب ذہنی رجحان برقرار رکھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ بائبل کا باقاعدہ اور پُرمطلب مطالعہ۔ زبور ۱۱۹ کے مصنف نے بارہا یہوؔواہ کی شریعت کیلئے اپنی محبت کو دُہرایا۔ وہ ”دن بھر“ اِسے پڑھتا اور لگاتار اِس پر غوروخوض کرتا تھا۔ (زبور ۱۱۹:۹۲، ۹۳، ۹۷-۱۰۵) نتیجتاً، وہ لکھ سکتا تھا: ”مجھے جھوٹ سے نفرت اور کراہیت ہے لیکن تیری شریعت سے محبت ہے۔“ مزیدبرآں، اُسکی گہری محبت نے اُسے کارروائی کرنے کی تحریک دی۔ وہ کہتا ہے: ”مَیں تیری صداقت کے احکام کے سبب سے دن میں سات بار تیری ستایش کرتا ہوں۔“—زبور ۱۱۹:۱۶۳، ۱۶۴۔
۹ اِسی طرح سے، خدا کے کلام کا باقاعدہ مطالعہ اور اِس پر غوروخوض ہمارے دلوں کو چُھو لیگا اور مسلسل، حتیٰکہ ”دن میں سات بار“ ’اُسکی تعریف‘ کرنے—یہوؔواہ کی بابت گواہی دینے—کی تحریک دیگا۔ (رومیوں ۱۰:۱۰) اِس کی مطابقت میں، پہلے زبور کا مصنف کہتا ہے کہ جو یہوؔواہ کی باتوں پر باقاعدہ غوروخوض کرتا ہے ”وہ اُس درخت کی مانند ہوگا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے۔ جو اپنے وقت پر پھلتا ہے اور جسکا پتا بھی نہیں مُرجھاتا۔ سو جو کچھ وہ کرے بارور ہوگا۔“ (زبور ۱:۳) پولسؔ رسول نے بھی خدا کے کلام کی قوت کو ظاہر کِیا جب اُس نے لکھا: ”ہر ایک صحیفہ خدا کے الہام سے ہے جو تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔“—۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷۔
۱۰. اِن آخری ایّام میں یہوؔواہ کے لوگوں کی بابت کونسی بات عیاں ہے؟
۱۰ اِس ۲۰ویں صدی میں سچے پرستاروں کی تعداد میں فوری اضافہ یہوؔواہ کی برکت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ کسی شک کے بغیر، ایک گروہ کے طور پر، اِن جدید گواہوں نے الہٰی حاکمیت کیلئے اپنے دلوں میں یہوؔواہ کے آئین کیلئے محبت کو پیدا کِیا ہے۔ زبورنویس کی طرح، اُنہوں نے اُسکے قانون کی تابعداری کرنے اور ”رات دن“ وفاداری سے یہوؔواہ کے جلال کی بابت گواہی دینے کی تحریک پائی ہے۔—مکاشفہ ۷:۱۵۔
یہوؔواہ کے زبردست کام
۱۱، ۱۲. یسوؔع اور اُسکے پیروکاروں کی طرف سے کئے جانے والے معجزات سے کیا سرانجام پایا تھا؟
۱۱ پہلی صدی میں، روحالقدس نے وفادار مسیحی گواہوں کو معجزے کرنے کی طاقت بخشی، جس نے اِس بات کا ٹھوس ثبوت مہیا کِیا کہ اُنکی گواہی سچی تھی۔ جب یوؔحنا اصطباغی قید میں تھا تو اُس نے یسوؔع سے یہ پوچھنے کیلئے شاگرد بھیجے: ”آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟“ یسوؔع نے ہاں میں یا نہیں میں جواب نہ دیا۔ بلکہ، اُس نے کہا: ”جو کچھ تم سنتے اور دیکھتے ہو جاکر یوؔحنا سے بیان کر دو۔ کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاکصاف کئے جاتے اور بہرے سنتے ہیں اور مُردے زندہ کئے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ اور مبارک وہ ہے جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔“ (متی ۱۱:۳-۶) اِن طاقتور کاموں نے یوؔحنا کیلئے گواہی کا کام دیا کہ یقیناً یسوؔع ہی ”آنے والا“ تھا۔—اعمال ۲:۲۲۔
۱۲ اِسی طرح سے، یسوؔع کے بعض پیروکاروں نے بیماروں کو شفا بخشی اور مُردوں کو بھی زندہ کِیا۔ (اعمال ۵:۱۵، ۱۶؛ ۲۰:۹-۱۲) یہ معجزات اُن کے حق میں خود خدا کی طرف سے ایک گواہ کی مانند تھے۔ (عبرانیوں ۲:۴) اور ایسے کاموں نے یہوؔواہ کی قادرِمطلق قوت کا مظاہرہ کِیا۔ مثال کے طور پر، یہ سچ ہے کہ شیطان، ”دُنیا کا سردار“ موت لانے کے ذرائع رکھتا ہے۔ (یوحنا ۱۴:۳۰؛ عبرانیوں ۲:۱۴) لیکن جب پطرؔس نے وفادار عورت تبیتاؔ کو مُردوں میں سے جلایا تو وہ صرف یہوؔواہ کی قدرت سے ہی ایسا کر سکتا تھا کیونکہ صرف وہی زندگی بحال کر سکتا ہے۔—زبور ۱۶:۱۰؛ ۳۶:۹؛ اعمال ۲:۲۵-۲۷؛ ۹:۳۶-۴۳۔
۱۳. (ا) کس طریقے سے بائبل کے معجزات ابھی تک یہوؔواہ کی قدرت کی تصدیق کرتے ہیں؟ (ب) یہوؔواہ کی معبودیت کو ثابت کرنے کیلئے پیشینگوئی کی تکمیل کیسے ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے؟
۱۳ وہ معجزات آجکل رُونما نہیں ہوتے۔ اُنکا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۸) تاہم، ابھی تک ہمارے پاس بائبل میں اُنکا ریکارڈ موجود ہے، جسکی بہت سے مشاہدین نے تصدیق کی۔ جب مسیحی آجکل اِن تاریخی بیانات پر توجہ مبذول کراتے ہیں تو وہ کام ابھی بھی یہوؔواہ کی قدرت پر مؤثر گواہی دے رہے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳-۶) اِسکے علاوہ، پیچھے یسعیاؔہ کے زمانے میں، یہوؔواہ نے اِس بات کے نمایاں ثبوت کے طور پر کہ وہی سچا خدا ہے ایک درست پیشینگوئی کی طرف اشارہ کِیا۔ (یسعیاہ ۴۶:۸-۱۱) آجکل بائبل کی بہت سی الہامی پیشینگوئیاں پوری ہو رہی ہیں—اُن میں سے کئی ایک مسیحی کلیسیا پر۔ (یسعیاہ ۶۰:۸-۱۰؛ دانیایل ۱۲:۶-۱۲؛ ملاکی ۳:۱۷، ۱۸؛ متی ۲۴:۹؛ مکاشفہ ۱۱:۱-۱۳) اور اِس بات کو اُجاگر کرتے ہوئے کہ ہم ”اِخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں، اِن پیشینگوئیوں کی تکمیل واحد برحق خدا کے طور پر یہوؔواہ کی برأت کرتی ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۔
۱۴. کن طریقوں سے یہوؔواہ کے گواہوں کی جدید تاریخ اِس بات کا زبردست ثبوت ہے کہ یہوؔواہ مطلقالعنان حاکم ہے؟
۱۴ آخر میں، یہوؔواہ ابھی تک اپنے لوگوں کے لئے بڑے کام، عجیب کام، کرتا ہے۔ بائبل سچائی پر بڑھتی ہوئی روشنی کی راہنمائی یہوؔواہ کی روح سے ہوتی ہے۔ (زبور ۸۶:۱۰؛ مکاشفہ ۴:۵، ۶) پوری دُنیا سے بیانکردہ غیرمعمولی اضافے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ یہوؔواہ ’عین وقت پر اِس کام کی رفتار تیز کر رہا ہے۔‘ (یسعیاہ ۶۰:۲۲) آخری ایّام میں جب سخت اذیت ایک کے بعد دوسرے ملک میں شروع ہو گئی ہے تو روحالقدس کی تقویتبخش حمایت کی وجہ سے یہوؔواہ کے لوگوں کی جرأتمندانہ برداشت ممکن رہی ہے۔ (زبور ۱۸:۱، ۲، ۱۷، ۱۸؛ ۲-کرنتھیوں ۱:۸-۱۰) جیہاں، یہوؔواہ کے گواہوں کی جدید تاریخ بذاتِخود ایک زبردست گواہی ہے کہ یہوؔواہ مطلقالعنان حاکم ہے۔—زکریاہ ۴:۶۔
خوشخبری جس کی منادی کی جانی ہے
۱۵. مسیحی کلیسیا کے ذریعے کونسی وسیع گواہی دی جانی تھی؟
۱۵ یہوؔواہ نے اسرائیل کو قوموں کیلئے اپنے گواہ کے طور پر مقرر کِیا۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰) تاہم، صرف چند ایک اسرائیلیوں کو غیراسرائیلیوں میں جانے اور منادی کرنے کا الہٰی طور پر حکم ملا تھا، اور ایسا عموماً یہوؔواہ کے عدالتی فیصلوں کا اعلان کرنے کی غرض سے تھا۔ (یرمیاہ ۱:۵؛ یوناہ ۱:۱، ۲) پھربھی، عبرانی صحائف میں پیشینگوئیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ایک دن یہوؔواہ بڑے پیمانے پر قوموں پر دھیان دیگا اور ایسا اُس نے خدا کے روحانی اسرائیل کے ذریعے کِیا ہے۔ (یسعیاہ ۲:۲-۴؛ ۶۲:۲) آسمان پر جانے سے پہلے، یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا: ”جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔“ (متی ۲۸:۱۹) جبکہ یسوؔع نے ”اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“ پر توجہ دی تھی، اُسکے پیروکاروں کو ”سب قوموں،“ حتیٰکہ ”زمین کی انتہا تک،“ بھیجا گیا تھا۔ (متی ۱۵:۲۴؛ اعمال ۱:۸) تمام نوعِانسان کو مسیحی گواہی کو سننا تھا۔
۱۶. پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا نے کس تفویض کو پورا کِیا، اور کس حد تک؟
۱۶ پولسؔ نے ظاہر کِیا کہ وہ اِسے اچھی طرح سمجھتا تھا۔ ۶۱ س.ع. کے قریب، وہ کہہ سکتا تھا کہ خوشخبری ”سارے جہان میں بھی پھل دیتی اور ترقی کرتی جاتی ہے۔“ خوشخبری کسی ایک قوم یا ایک فرقے تک محدود نہ تھی، جیسےکہ اُن میں جو ”فرشتوں کی عبادت“ میں اُلجھے ہوئے تھے۔ بلکہ، کُھلےعام اِسکی ”منادی آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں کی گئی،“ تھی۔ (کلسیوں ۱:۶، ۲۳؛ ۲:۱۳، ۱۴، ۱۶-۱۸) لہٰذا، پہلی صدی میں خدا کے اسرائیل نے اپنی اِس تفویض کو پورا کِیا کہ ”اُسکی خوبیاں ظاہر [کریں] جس نے [اُنہیں] تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“
۱۷. متی ۲۴:۱۴ وسیع پیمانے پر کیسے مسلسل پوری ہوتی رہی ہے؟
۱۷ پھربھی، پہلی صدی کا منادی کا وہ کام جو کچھ آخری ایّام میں سرانجام پائیگا اُسکا پیشخیمہ تھا۔ بالخصوص آگے ہمارے زمانے میں جھانکتے ہوئے، یسوؔع نے کہا: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴؛ مرقس ۱۳:۱۰) کیا یہ پیشینگوئی پوری ہو گئی ہے؟ یقیناً، ہوئی ہے۔ ۱۹۱۹ میں ایک چھوٹی سی شروعات سے لیکر، خوشخبری کی منادی اب ۲۳۰ سے زائد ممالک میں پھیل گئی ہے۔ گواہی منجمد شمالی میں اور گرم اور مرطوب ممالک میں سنی گئی ہے۔ بڑے بڑے برّاعظموں کا احاطہ کِیا گیا ہے اور دُورافتادہ جزائر کی کھوج لگائی گئی ہے تاکہ اُنکے باشندے بھی گواہی پا سکیں۔ بڑے بڑے انقلاب جیسےکہ بوؔسنیا اور ہرزیگوؔینا میں جنگ، کے دوران بھی خوشخبری کی منادی جاری رہتی ہے۔ پہلی صدی کی طرح، گواہی ”سارے جہان میں“ پھل پیدا کر رہی ہے۔ ”آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں“ خوشخبری کا کُھلےعام اعلان کِیا گیا ہے۔ نتیجہ؟ اوّل، ”ہر ایک قبیلہ اور اہلِزبان اور اُمت اور قوم میں سے“ خدا کے اسرائیل کے بقیے کو اکٹھا کِیا گیا ہے۔ دوئم، ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان“ میں سے ”بڑی بِھیڑ“ کے لاکھوں افراد کا لایا جانا شروع ہوا۔ (مکاشفہ ۵:۹؛ ۷:۹) متی ۲۴:۱۴ کا تکمیل پانا وسیع پیمانے پر جاری رہتا ہے۔
۱۸. بعض کام کونسے ہیں جو خوشخبری کی عالمگیر منادی کے ذریعے سرانجام دئے گئے ہیں؟
۱۸ خوشخبری کی عالمگیر منادی اِس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یسوؔع کی شاہی موجودگی شروع ہو چکی ہے۔ (متی ۲۴:۳) اِسکے علاوہ، یہ بنیادی ذریعہ ہے جس سے ”زمین کی فصل“ کاٹی جاتی ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو نوعِانسان کی واحد سچی اُمید، یہوؔواہ کی بادشاہت کی جانب راہنمائی کرتی ہے۔ (مکاشفہ ۱۴:۱۵، ۱۶) چونکہ صرف سچے مسیحی ہی خوشخبری کی منادی میں شریک ہوتے ہیں، یہ اہم کام سچے مسیحیوں کو جھوٹے مسیحیوں سے جُدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ (ملاکی ۳:۱۸) اِس طرح، یہ منادی کرنے والوں اور سننے والوں کی نجات کا باعث بنتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) سب سے اہم بات یہ ہے کہ خوشخبری کی منادی یہوؔواہ خدا کیلئے عزت اور تمجید لاتی ہے، وہ جس نے اِسکے کرنے کا حکم دیا، وہ جو اِسے کرنے والوں کی حمایت کرتا ہے اور وہ جو اِسے پھلدار بناتا ہے۔—۲-کرنتھیوں ۴:۷۔
۱۹. جیسے ہی تمام مسیحی نئے خدمتی سال میں داخل ہوتے ہیں تو اُنہیں کیا عزم کرنے کی حوصلہافزائی دی گئی ہے؟
۱۹ کچھ عجب نہیں کہ پولسؔ رسول نے یہ کہنے کی تحریک پائی: ”مجھ پر افسوس ہے اگر خوشخبری نہ سناؤں۔“ (۱-کرنتھیوں ۹:۱۶) مسیحی بھی آجکل ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ اِس تاریک دُنیا میں سچائی کی روشنی پھیلاتے ہوئے، ”خدا کے ساتھ کام کرنے والے“ ہونا ایک شاندار استحقاق اور ایک بڑی ذمہداری ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۳:۹؛ یسعیاہ ۶۰:۲، ۳) وہ کام جس کی ابتدا ۱۹۱۹ میں ایک چھوٹے پیمانے پر ہوئی تھی اب حیرانکُن وسعتوں تک پہنچ گیا ہے۔ تقریباً پانچ ملین مسیحی الہٰی حاکمیت کیلئے گواہی دے رہے ہیں جبکہ وہ دوسروں تک نجات کا پیغام پہنچانے میں ایک سال میں ایک بلین سے زیادہ گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ یہوؔواہ کے نام کی تقدیس کرنے کے اِس کام میں حصہ لینا کتنی خوشی کی بات ہے! جب ہم ۱۹۹۶ کے خدمتی سال میں داخل ہوتے ہیں تو آئیے سُست نہ ہو جانے کا عزم کریں۔ بلکہ، ہم تیمتھیسؔ کیلئے پولسؔ کے الفاظ ”کلام کی منادی کر۔ وقت اور بےوقت مستعد رہ،“ پر پہلے سے کہیں زیادہ دھیان دینگے۔ (۲-تیمتھیس ۴:۲) جب ہم ایسا کرتے ہیں، ہم اپنے سارے دل سے دُعا کرتے ہیں کہ یہوؔواہ ہماری کوششوں کو مسلسل برکت دے۔ (۱۳ ۹/۰۱ w۹۵)
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ قوموں کیلئے یہوؔواہ کے ”گواہ“ کے طور پر کس نے اسرائیل کی جگہ لے لی؟
▫ مسیحی چالچلن گواہی دینے کا باعث کیسے بنتا ہے؟
▫ مسیحی گواہ کیلئے بائبل کا مطالعہ اور اِس پر غوروخوض کیوں لازمی ہے؟
▫ کس طریقے سے یہوؔواہ کے گواہوں کی جدید تاریخ اِس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ یہوؔواہ سچا خدا ہے؟
▫ خوشخبری کی منادی کے ذریعے کیا سرانجام دیا گیا ہے؟
[تصویریں]
محدود ہو نے سے کہیں بعید، خوشخبری اب ”آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں“ سنائی گئی ہے